Hum To Sharminda Hain Is Dour K Insaan Ho Kar Urdu Speech
ہم تو شرمندہ ہیں اس دور کے انساں ہو کر | Assalam-o-Alaikum Friends. This Article contains Speech on “Hum To Sharminda Hain Is Dour K Insaan Ho Kar Urdu Speech” 2023 in Written Form. You can read the article and copy it as well. We have updated the PDF and the Video of this script at the end.
صدر والا مرتبت اور حاضرین والا قدر! مجھے آج جس عنوان پر اظہار خیال ہم تو شرمندہ ہیں اس دور کے انساں ہو کر
!ذی وقار
آج کا عنوان محض ایک تقریر کا موضوع نہیں یا الفاظ کی ساحری کا ایک بہانہ نہیں، بلکہ یہ ایسی تلخ حقیقت ہے جس نے زمانے بھر کو دکھوں اور رنج و آلام کی صلیب کے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ بے روزگاری بے حالی پریشانیوں کے آتش فشاں مصائب سے بھر پور عہد حال زوال انسانیت کا نوحہ پڑھتا ہوا مستقبل ایسے دور پر آشوب میں ہر صاحب نظر چیخ اٹھتا ہے۔ یہ شیخ کبھی سینے میں گھٹتی اور آلام روزگار آتی ہے۔
.
لب پہ پابندی تو ہے احساس پہ پہرا تو ہے
پھر بھی اہل دل کو احوال بشر کہنا تو ہے
جھوٹ کیوں بولیں فروغ مصلحت کے نام پر
زندگی پیاری سہی لیکن ہمیں مرنا تو ہے
ذی وقار! ادوار اور زمانے اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔ کچھ ادوار اتنے خوش بخت ہوتے ہیں کہ چاندنی بوئیں تو ستارے اُگتے ہیں۔ مٹی کو چھولو تو سونے کاروپ دھار لیتی ہے مگر آج کے انسان کو جو دور نصیب ہوا ہے وہ فقط زندگی ہے بندگی شرمندگی سے عبارت ہے۔ سکول، کالج اور یونیورسٹیاں تو ہیں مگر روزگار نہیں۔ مسجدیں اور عبادت گاہیں تو ہیں مگر جبینیں سجدوں کے تقدس سے محروم ہیں۔ جس رسول اعظم میای یکم نے فرمایا تھا کہ اے کعبہ تو مجھے بہت پیارا ہے مگر ایک انسان کا لہو تجھ سے بھی زیادہ پیارا ہے۔ اسی رسول اعظم کے امتی بجائے اس کے کہ امن و سلامتی کی خیرات تقسیم کرتے وہ اغیار کے آلہ کار بن کر خودکش حملوں سے زندہ شہروں کو لاشوں کے ڈھیر بنا رہے ہیں۔ سچائی اور صداقت نے مصلحت اور ریا کاری کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ بے حیائی کا وہ سیلاب جو کبھی یورپ کی گلیوں تک محدود تھا اب ہمارے دروازہ پر دستک دے رہا ہے۔ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے ۔
Hum To Sharminda Hain Is Dour K Insaan Ho Kar Urdu Speech
جس میں کچھ انسان کی توقیر کے احکام تھے
وہ شریعت معبدوں کے زیر سایہ سو گئی
آگئیں بازار میں بکنے خدا کی عظمتیں
جی اٹھی ہیں خواہشیں اور مر گیا ہے آدمی
محترم حاضرین! المیہ تو یہ ہے کہ اس دور ذلت و خواری کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے نام پر اعلیٰ ترین دور کہنے والے اندھے دانشور بھی مل جاتے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی اپنی جگہ مگر اصل دکھ تو یہ ہے کہ انسانیت اپنے مرکز و محور سے بھٹک چکی ہے۔ طاغوتی طاقتوں نے مسلم قوتوں کی شان رفتہ کا بھرم پامال کر دیا ہے۔ فلسطین، عراق، لبنان افغانستان کے بعد ایران اور پاکستان پر سرخ دائرے بنا دیئے گئے۔ مگر افسوس ہم پھر بھی ایک نہیں ہوتے۔
جناب والا! قیامت پر قیامت برپا ہوگئی کہ مغرب والوں نے شان رسالت ہم پر ہاتھ ڈال دیا۔ آقائے عالی مرتبت می الله کم کے خاکے بنا کر نمائشیں کی جا رہی ہیں۔ قرآن پر منفی فلم بن چکی ہے۔ سر عام اسلام کو رسوا کیا جا رہا ہے۔ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو قدموں تلے روند دیا گیا ہے مگر ہم پھر بھی ایک نہیں ہوتے۔ صور اسرافیل بج چکا اور ہم عزرائیل کا انتہائی کرب اور بے بسی کے حالت میں انتظار کر رہے ہیں۔
Hum To Sharminda Hain Is Dour K Insaan Ho Kar Urdu Speech
اک حشر سا برپا ہے ہر سمت قیامت ہے
اب جینے سے موت اچھی، جینا بھی تو ذلت ہے
والا قدر! میں عالم بے بسی میں خالق کونین سے ایک بندہ ناچیز کی صورت سوال کرتا ہوں۔ اے ہمیں پیدا کرنے والے کیا ہمارے مقدر میں یہی دور ذلت و خواری تھا۔ ایسا اندھیرا ہے کہ ہم روشنی کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کھانے کی چیزیں انسان سے روٹھ گئیں ۔ امراض نے ہمیں موت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ علم کا بڑا شہرہ ہے مگر دل بے سرور ہیں، چاروں طرف بجلی کی روشنی ہے مگر آنکھیں بے نور ہیں اور اب تو بجلی بھی خواب بن گئی۔ ظاہر اور باطن دونوں اندھیرے میں ڈوب گئے۔ شیطان مسکرا رہا ہے مگر انسانیت شرافت کو کمزوری عزت کو مجبوری اور غرام یاد ناں ہے۔
اے علم و حکمت کی ڈگریاں ٹنوں کے حساب سے تقسیم کرنے والو! خدارا میر کے دور کی عظمت لوٹا دو۔ علامہ اقبال تو مدتوں پہلے کہہ گئے تھے۔
یہ علم یہ حکمت مدیر یہ حکومت
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تیری منتظر روز مکافات
اے خالق ارض و سما! ہم تیرے بھکاری ہیں۔ ہمیں اس عہد ناپرساں کی بے بسی بے حسی اور ذلت و خواری کے ظلمت کدے سے نکال دے۔ ہمیں وہی اجالے پھر بخش دے جن سے زندگی کی خوشیاں اور خوشحالیاں لوٹ آئین ۔ پیٹ کو – بھوک اور زندگی کو شرمندگی سے نجات دے دے۔ ورنہ جب مجبوری اور ذلت و خواری ہی مقدر بن جائے ۔ جب رزق ملازمت، کاروبار اور باوقار زندگی کے تمام دروازے بند کر دیے جائیں تو حالات کی بے بسی کی کوکھ سے انقلاب جنم لیتا ہے۔ میں اس فکر انگیز پیغام کے ساتھ آپ سے اجازت چاہتا ہوں۔
Hum To Sharminda Hain Is Dour K Insaan Ho Kar Urdu Speech
آؤ کہ کوئی خواب بنیں کل کے واسط ے
ورنہ یہ رات آج کے سنگین دور کی
سلے گی جان و دل کو کچھ ایسے کہ جان و دل
عمر پھر نہ کوئی حسیں خواب بن سکیں
Hum To Sharminda Hain Is Dour K Insaan Ho Kar Urdu Speech PDF
Thanks for reading this Article on “Hum To Sharminda Hain Is Dour K Insaan Ho Kar Urdu Speech” in Written Form. If you liked reading this article or have suggestions please write it down in the comments section. Thankyou for visiting our Site !
ALSO READ
Urdu Speech on “Markaz-e-Yaqeen Pakistan”