Pewasta Reh Shajar se Umeed-e-Bahar Rakh Urdu Speech
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ | Assalam-o-Alaikum Friends. This Article contains Speech on “Pewasta Reh Shajar se Umeed-e-Bahar Rakh Urdu Speech” 2023 in Written Form. You can read the article and copy it as well. We have updated the PDF and the Video of this script at the end.
میں خوں خانہ ہست کا دروازہ کھول کر نگار خانہ حیرت نماکا مطالعہ کرنے میں مصروف تھا کہ سامنے کھڑی منکش دیوارسے آواز آئی۔ اے اپنی لو سے لپٹتے ہوئے آخری چراغ اپنے آس پاس کے اندھیرے میں جاگتی وہ آنکھ تلاش کرکہ جس کی گمشدگی کے باعث تیری حسیات کے شعور کا جنازہ نکلا جا رہا ہے۔
میں آدم کا انا پرست بیٹا اپنی خودداری کے سریے کو ذرا اور اونچا کر کے گردن موڑے بغیر دیکھتا ہوں تو میری تلاش یافتہ آنکھیں ناکامی کے آئینہ پہ بے نور ہوجاتی ہیں۔
میرے آس پاس مزاہب کے جنگل ویلے ہیں کہ جن میں لوگوں کی امیدوں کا سامان بکھرا پڑا ہے جنہیں مذہبی پیشوا لوٹ کر سکون کی ابدی نیند لے چکے مگر میں کچھ نہیں دیکھتا۔ میرے آس پاس جنسی زیادتی کرنے والے درندوں کے منہ سے ٹپکتے ہوئی رال کے دریا ہیں کہ جن میں ان گنت بچیوں کی لاش بہی جاتی ہیں مگر میں اپنی ذات کے بھنور سے نکل کر ان کے گلے ہوئے جسموں کو نہیں ڈھانپتا۔
میرے آس پاس الگ الگ رنگ و نسل کے لفظوں کے تالاب ہیں کہ جن میں تیرتے ہوئے بیش بہا قیمتی معنی کسی آواز کا پتھر گرنے کے انتظار میں مرتے جا رہے ہیں مگر مجھے ان کے مرنے کی بدبو نہیں آتی۔ میرے آس پاس بدلتے ہوئے موسموں کا شور ہے جو جنگل جنگل آگ لگا کر کروڑوں جانوروں کی راکھ اڑائے پھرتے ہیں مگر میری ہمدردی کی آنکھ نہ جانے کس نیلم پری کے انتظار میں خود کو نوچے بیٹھی ہے۔
Pewasta Reh Shajar se Umeed-e-Bahar Rakh Urdu Speech
سلیماں سر بہ زانو اور سبا ویراں
سبا ویراں، سبا آسیب کا مسکن
سبا آلام کا انبار بے پایاں!
گیاہ و سبزہ و گل سے جہاں خالی
ہوائیں تشنۂ باراں،
طیور اس دشت کے منقار زیر پر
تو سرمہ ور گلو انساں
سلیماں سر بہ زانو
اب کہاں سے قاصد فرخندہ پے آئے؟
کہاں سے، کس سبو سے کاسۂ پیری میں مے آئے
کہاں سے، کس سبو سے کاسۂ پیری میں مے آئے
میرے اندر کے چراغ میں شب و روز اک حیرت جلتی ہے صدر عالی وقار کہ آخر زمانے کی یہ گردشوں نے مجھ پہ ایسا کیا اسم پھونکاکہ میرے آس پاس دیکھنے والی آنکھ پتھرہوگی۔ کبھی مجھے میرے شگفتہ ماضی کی یاد آئ تو چار آنسو خاک میں ملا کر دل کے کذہ گر نے ہنسی ہنسی میں ایک پتلا بنا دیا جسے دنیا کی آخری تخلیق سمجھ کر ہم خوش ہوتے رہے۔
میشال خاں اور زینب پر لکھی جانے والے ہماری نظموں کی عمر ہمارے اپنے ذوق مطالعہ کی نظموں کی عمر سے بھی کم نکلی اور ہم یہ بھول گئے کہ ہماری پشت میں کسی کی ہنرمندی کا چراغ جلتا تھا ہم یہ بھول گئےکہ چراغ سے چراغ جوڑ کر دن کیسے بنایا جاتا تھااور ہاتھ میں ہاتھ ملا کر قطاریں کیسے کھڑی کی جاتی تھیں کہ جنہیں دیکھ کر بڑے سےبڑے طوفان اپنا راستہ بدل لیا کرتے تھے۔
ہم بھول گئے صدر عالی وقار کہ ہمیں اپنے آپ کو کس طریقے سے آگے لے کر چلنا تھا۔ اور آدمیت کا تاج ہمارے سر پر سجانے والے نے ہم سے یہ عہد لیا تھا کہ کہ تم اپنی آستینوں کوسانپوں کا گھر نہیں بناؤگے لیکن وقت آنےپر ہمارے پیرہن کی درزوں سے بدگمانیوں کے ایسے ازدہے نکل جو ہمارےاحساسات کی رشتہ داریوں کو نگل گئے کہ
Pewasta Reh Shajar se Umeed-e-Bahar Rakh Urdu Speech
زنگ آلودہ بدن کر کے چلے آتے تھے
گہرے پانی میں جنہیں بھیج دیا جاتاتھا
کشتیوں والے کہیں دور نکل جاتے تھے
صاف پانی میں کوئی رنگ ملا دیتا تھا
سخن کا آغاز تیری نیم نگاہی سے کیا
ورنہ مجھ میں کوئی خاموش ہوا جاتا تھا
ورنہ مجھ میں کوئی خاموش ہوا جاتا تھا
Pewasta Reh Shajar se Umeed-e-Bahar Rakh Urdu Speech VIDEO
Thanks for reading this Article on “Pewasta Reh Shajar se Umeed-e-Bahar Rakh Urdu Speech” in Written Form. If you liked reading this article or have suggestions please write it down in the comments section. Thankyou for visiting our Site !
ALSO READ
Urdu Speech on “Markaz-e-Yaqeen Pakistan”