Tajir Aur Tota | تاجر اور طوطا | Urdu Story

Hakayat-e-rumi-Tajir-aur-totay-ki-dilchasp-kahani

In this article we will read a beautiful urdu story with a great moral Lesson named Tajir aur Tota. The Story is considered to be one of the best stories with moral lesson and you can narrate this anywhere or add it into your speech to make it look and sound interesting

السلام علیکم اردو لیٹریچر کے دیکھنے اور سننے والوں کو میرا سلام، اور نےء آنے والوں کو خوش آمدید۔

 تو سنتے ہیں آج کی ایک زبردست کہانی۔

 ایران کا ایک سوداگر تجارت کے سلسلے میں ہندوستان آیا ہوا تھا۔  یہاں سے اس نے خوبصورت اور میٹھی میٹھی باتیں کرنے والا طوطا خریدا۔  جس کی ادائیں بڑی دل پسند اور آواز بڑی پیاری تھی۔  وہ تاجر اسے اپنے ملک لے گیا وہ طوطا باتیں کرکے نہ صرف تاجر کو خوش کرتا تھا بلکہ ہر عام و خاص کا دل اپنے نغموں سے  خوش رکھتا تھا۔

 ایک دفعہ وہی سوداگر تجارت کی غرض سے دوبارہ ہندوستان جانے لگا اور روانگی سے قبل اپنے اہل خانہ اور غلاموں      سے پوچھا کہ وہ ان کے لیے ہندوستان سے کیاکیا لائے۔ ہر ایک نے اپنی اپنی پسند بتاءی ۔اس نےطوطے سے کہا تم بھی بتاؤ تمہاری کیا فرماءش ہے ۔طوطے نے کہا میری صرف یہ درخواست ہے کے دوران سفر جب تم فلاں دریا کے پارجاؤگے تمہیں وہاں اک پر فضاجزیرہ نظر آئے گا وہاں میرے ہم جنس طوطو کو سلام پہنچاکر کہنا کہ تمہاری قوم کا فلاں طوطا میری قید میں ہے اور تمہاری ملاقات کو جی ترس گیاہے ۔تم آزادی کے ساتھ باغوں اور سبزہ زاروں میں مزے کر رہے ہو تمہیں اپنے غریب الوطن  ساتھی کی کوئی خبر نہیں۔ کیا اسی کا نام دوستوں کی وفا ہے۔ میں پنجرے میں پڑا رہا اور تم باغوں میں عیش کر رہے ہو۔ انہے  کہناکہ وہ اپنی آزادی کے بارے میں مشورہ کم کرتا ہے ہے ور نہ یہ بھی ممکن ہے کہ تمہاری ملاقات کی حسرت لئے اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں۔ یارو یہ کیا انصاف ہے کیا یہی آئین و فاداری ہے ۔سوداگر نے وعدہ کیا کہ وہ اس کایہ پیغام اس کے ہمجولیوں تک پہنچا دے گا۔

سوداگر سفر کرتا ہوا جب ہندوستان پہنچا اور اپنے طوطے کے بتلائے ہوئے پر فضا جزیرے سےگزرنے لگا تو وہاں سے طوطوکے بولنے کی آوازیں آنے لگیں۔ وہاں اس نے انہیں مخاطب ہو کر کہا اے طوطو اپنے اک بچھڑے بھائی کا پیغام سن لو جو میرے گھر میں ہے۔ وہ سلام کہتا ہے، وہ تم پر افسوس کرتا ہے کہ تم  کو اس کے بغیر سبز شاخوں پہ جھولنا   اس طرح بھاتا ہے کوئی اس کی ملاقات کی فکر کرو۔

 ابھی سوداگر نے بمشکل اپنی بات مکمل ہی کی تھی کہ درخت کی شاخ پر بیٹھا ایک طوطا پھرپھڑانے لگا اور بے دم ہو کر زمین پر گر پڑا چند لمحے تک اس کا جسم تھرتھڑیا پھربے جان ہو گیا۔ سوداگر سوچنے لگا بعض اوقات ایسی گفتگو سے خاموشی بہتر ہوتی ہے جو فساد اور استراب پیدا کرے ۔سوداگر اس پیغام رسانی پر بڑا شرمندہ ہوا جس نے ناحق اپنی زبان سے ایک جان  گوای۔ تلوار کا زخم بھر جاتا ہے مگر زبان کا زخم نہیں بھرتا کہ مرنے والا شاید اس طوطے کا کوئی عزیز ہے میری اس بے موقع خبر سے اسے اتنا رنج ہوا کہ  کہ برداشت نہ کر سکا اور مر گیا۔ وہاں سے افسوس کرتا ہوا رخصت ہوا۔

If you are really enjoying reading Tajir and Tota urdu story than please LIKE this article so that we bring more such content for you.

کچھ عرصے بعد کاروبار سے فارغ ہو کر جب اپنے وطن واپس آیا اور اہل خانہ کو ان کے حسب فرمائش تحائف دیےطوطے نے پوچھا میری فرمائش پوری کی میرے ہم جنسوں نے کیا جواب دیا اور تو نے کیا دیکھا؟ سوداگر نے سرد آہ بھری اور چہرے پر رنج و الم کے آثار نمودار ہونے لگے کہنے لگا بہتر یہی ہے کہ جو کچھ ہوا ہے مت سنو ورنہ تجھے صدمہ ہو گا میں خود تیرا پیغام دے کر پچھتاتاہوں اب تک اس کی مذمت میرے دل میں ہے کاش میں یہ پیغام نہ  پہنچاتا۔ طوطا بولا اے مالک ایسی خدانخواستہ کیا بات ہوگی جو تو زبان پر لاتا ہوا ڈرتا ہے بے تکلف بیان کر اب جو ہونا تھا ہو گیا ۔سوداگر کہنے لگا جب ہندوستان اس پر فضا مقام پر پہنچا تو وہاں کے طوطوں کو تیرا پیغام دیا اور جو تیرا حال تھا وہ سب بیان کیا ۔معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک طوطا تیرا درد آشنا اور عزیز تھا میری باتیں سنتے ہی پھرپھڑا کرگرگیا اور تڑپ تڑپ کر مر گیا  ۔شاید اسے تیری گرفتاری کا اتنا رنج پہنچا تھا کہ وہ برداشت نہ کر سکا اس کے یوں دم دینے سے میں بے حد پشیماں ہوں۔

Urdu Speech on 23 March 1940

 دیکھتے ہی دیکھتے سوداگر کے طوطے کے بدن پہ  تھرتھری چھوٹی، آنکھیں پتھرا گئیں اور ایک آواز ہائے نکالی ۔قفص کے اندر گر پڑا اور تڑپتے ہوے جان دے دی۔

 سوداگر نے ٹوپی سر سے اتار پھینکی اور سینے پہ بار بار ہاتھ مار کر روتا  اور یہ کہتا  اے خوش بیاں طوطے تجھے کیا ہوگیا ہے یہ تو نے کیا کیا اگر مجھے خبر ہوتی تو یوں داغِ جدائی دے گا  تو یہ منہوس  قصہ میں تجھے نہ  سناتا ۔

 غرض دیر تک  طوطے کے مرنے کے غم میں اس طرح روتا رہا  جب خوب دل کی بھڑاس نکالی تو مرے ہوئے طوطے کوقفص سے نکال کر باہر پھینک دیا    ۔  باہر پھینکنا تھا کہ وہ  طوطا فورا پھر سے اڑ کر درخت کی شاخ پر جا بیٹھا۔ اس مرے ہوئے طوطے نے آزاد فضا میں ایسے اڑان کی جیسے مشرق سے آفتاب  ابھرتا ہے ۔

سوداگرگزرا ہوا معاملہ بھول گیا طوطے کی اس حرکت پر حیران و پریشان ہو کر رہ گیا اور کہنے لگا اےچلاق پرندے یہ کیا ماجرہ ہے۔ اے میرے بل ذرا یہ تو بتا کہ ہندوستان کے طوطے نے تجھے ایسا کیا پیغام دیا تھا کہ جسے تو بھانپ گیا  اور جس سے تو میری آنکھوں پر اپنے مکر و فریب کا پردہ ڈالنے میں کامیاب ہوا۔  ارے غضب خدا کاتو نے کمال دکھایا کہ ہمیں جلا کے خود روشن ہوگیا۔

Urdu Speech on “Independence Day”

طوطا بولا میرے بھائی طوطے نے مجھے یہی سبق دیا اور اپنے عمل سے بتایا کہ میں قید سے کس طرح رہائی پا سکتا ہوں۔  میں نے اس پیغام کو سمجھا اور اس پر عمل کیا۔ اس نے اشارہ یہ دیا کہ نغمہ گوی  اور میٹھی بول چال چھوڑ دو۔ تو اپنی اس سحر انگیز آواز کی وجہ سے گرفتار ہوااورپھر اس نے میری آزادی کے لیے خود کو مرغا بنایا کہ ایک نادان پرندے ہر کسی کا دل خوش کرنے والے، مردہ بن جاتا کہ تو اس قید سے رہائی پا سکے۔  طوطے نے یہ کہہ کر اپنے اصلی وطن کا رخ کیا آخرکار ایک دن اپنے ساتھیوں سے جا ملا۔

 جس کو  عالم آشکارہ حسن آتا ہووہ سو بلاؤں کا ہدف بنتا ہے۔

 بہار کے موسم میں بھی پتھرپتھر  ہی رہتا ہے ۔

 بس توبھی اپنے رب کو منا دے اور خاک ہو جا۔خاک سے سبزہ اور پھول پھوٹ پڑتے ہیں تاکہ تجھ سے بھی لالہ گل  اگیں۔

Also Read:

Urdu Speech on “Defence Day”

Urdu Speech on “Markaz-e-Yaqeen Pakistan”

Urdu Speech on “ Inqilab Aayega “

Urdu Speech on “Watan se Muhabbat”

Urdu Speech on “Father’s Day”

Urdu Speech on “Cleanliness”

Urdu Speech on “Khamoshi Kab Tak”

Urdu Speech on “Hum Zinda Qaum Hain”

Urdu Speech on “Shaheed ki jo maut hay wo qaum ki hayat hay”

50% LikesVS
50% Dislikes

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *