ہم نے تخریب سے خود اپنے نشیمد پھونکے | Assalam-o-Alaikum Friends. This Article contains Speech on “Humnay Takhreeb se Khud apnay Nasheman Phonkay” 2024 in Written Form. This Essay is for Students of Class 7, Class 8, Class 9 and Class 10 because it is a beginner Level Essay written for Students. You can read the article and copy it as well. We have updated the PDF and the Video of this script at the end
Humnay Takhreeb se Khud apnay Nasheman Phonkay | ہم نے تخریب سے خود اپنے نشیمد پھونکے
GO TO
Humnay Takhreeb se Khud apnay Nasheman Phonkay | Video
Humnay Takhreeb se Khud apnay Nasheman Phonkay | Written/ PDF
This Article can be used as an Essay or Speech on the Topic Humnay Takhreeb se Khud apnay Nasheman Phonkay , Urdu speech on Humnay Takhreeb se Khud apnay Nasheman Phonkay
Humnay Takhreeb se Khud apnay Nasheman Phonkay | ہم نے تخریب سے خود اپنے نشیمد پھونکے
عالی وقار سوچتا ہوں پرندے کیوں نہیں اتے، کنکر کیوں نہیں گراتے۔ دیکھتا ہوں بندوق اٹھتی ہے گولی چلتی ہے، چلانے والے کی اواز اتی ہے لا الہ الا اللہ۔ گولی جسم کے ار پار ہوتی ہے تو مرنے والے کے منہ سے صدا اتی ہے لا الہ الا اللہ۔ پرندے کیوں نہیں اتے کنکر کیوں نہیں گراتے؟
صدر عالی وقار علی وقار! جب قاتل بھی مسلمان مقتول بھی مسلمان, قاتل کا بھی وہی نعرہ جو مقتول کا نعرہ، قاتل کا بھی وہی کعبہ جو مقتول کا کعبہ، قاتل کا بھی وہی رب جو مقتول کا رب، قاتل کہلائے غازی اور مقتول شہید تو پھر پرندے کس کی مدد کو ائے قاتل کی یہ مقتول کی؟ کنکر کس پہ گرائیں قاتل پہ یہ مقتول پہ؟ تخریب کار پہ یا تخریب گزیدہ پہ ؟ اسی لیے صدر عالی وقار اسی لیے پرندے نہیں اتے کنکر نہیں گراتے اور۔
مفلص شہر کو دھنوان سے ڈر لگتا ہے
پر ندھنوان کو رحمان سے ڈر لگتا ہے
اب کہاں ایثار و اخوت کو مدینے جیسی
اب تو مسلم کو مسلمان سے ڈر لگتا ہے
اب تو مسلم کو مسلمان سے ڈر لگتا ہے
صدر عالی وقار! جی تو چاہتا تھا کہ کشمیر، فلسطین، چیچنیاں، بوسنیا افغانستان، لہو لاشیں، کٹے پھٹے انسان اور خون میں لدی تار کول کی سڑکوں کی بات کرتا مگر صدر عالی وقار اج اس مباحثے کے قواعد و ضوابط کے مطابق میرے پاس بولنے کے لیے پانچ سے سات منٹ ہیں اور پانچ سے سات منٹ میں تو اپنوں کے لگائے ہوئے زخم دکھانا مشکل ہے اوروں کے قصے کیا چھیڑو۔
صدر ذی وقار! میرا موضوع ہم نے تخریب سے خود اپنے نشیمد پھونکے۔ زیر بحث قرارداد میں موجود لفظ ہم سے میری مراد میں، آپ اس ایوان میں موجود ہر شخص اور نشمن سے مراد اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔
اس نشے من کو اس عرض پاک کو دنیا کے نچے پر لانے والا قائد اپنی زندگی کی اخری سانسیں گن رہا تھا گاڑی دیر سے پہنچانے والے کون گریبان میں جھانکے تقریب کار ہم خود ہیں۔ سکوت ڈھاکہ وطن دولخت ایک اشیانہ دو حصوں میں بانٹنے والے کون؟ گریبان میں جھانکے تقریب کار ہم خود ہیں. وطن کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے والے سندھو دیش، پختونستان، جاگ پنجابی جاگ اور عظیم بلوچستان کا نعرہ لگانے والے کون ہیں گریبان میں جھانکے تخریب کار ہم خود ہیں۔
گھنٹیاں نہ بجاؤ میں یہاں سے چلا جاؤں گا مگر میری اواز اس شور صدا میں گونج تو لینے دو۔ صدر عالی وقار! علی وقار اپنا نشیمن تو ایک طرف، خدا کے گھر لال مسجد کے در و دیوار کو مسلمانوں کے خون سے نہلانے والے کون گریبان میں جھانکے تقریب کار ہم خود ہیں۔
قوم کے سپوت قوم کے نوجوان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پس زندان ڈالنے والے کون گریبان میں جھانکے تقریب کار ہم خود ہیں اور علی وقار
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے سب ٹھیکانوں کی
شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
صدر عالی وقار! قاتل کوئی اور نہیں قصوروار کوئی اور نہیں تقریب کار کوئی اور نہیں!
چلیے ذرا دیر کو تصور کیجئے کہ قاتل کوئی اور ہے تخریب کار کوئی اور ہے قصوروار کوئی اور ہے تو پھر میرا جلتا نشیمن سوال کرتا ہے کہ خزانے خالی کون کر گیا؟ املاک کس نے نیلام کی ؟ عہدے کس نے بیچے؟ در آمداد و برامداد کی اڑ میں ملک کون لوٹتا رہا؟ پرچم کا تقدس پامال کس نے کیا؟ کراچی کی فٹباتوں پر کراچی کی فٹباتوں پر حکیم سعید شہید، مفتی علامہ حسن تراوی اور اور مفتی شام زئی کا خون کس نے بہایا ؟ منصف اعلی کو شہر شہر نگر نگر انصاف کا بھکاری کس نے بنایا؟ آئین کی دھجیاں اڑانے والے کون ہیں؟ علی وقار میرا چلتا نشمن سوال کرتا ہے کہ تقریب کار میں بھی نہیں، تقریب کار اپ بھی نہیں قصوروار میں بھی نہیں، قصور وار بھی نہیں تو میرا جلتا نشیمن سوال کرتا ہے
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستان تمام شہر میں پہنے ہوئے دستانے
صدر عالی وقار ! قاتل کوئی اور نہیں قصوروار کوئی اور نہیں۔
تقریب کار کوئی اور نہیں صدر عالی وقار اپنی ہی تقریب کاریوں سے اپنے ہی نشمن جلانے کی یہ داستانیں میں کیا رقم کروں گا۔
اس موضوع پر بات کرنا تھی تو اے کاش، اے کاش کہ اپ ایک دعوت نامہ اس بوڑھے باپ کو بھیج دیتے کہ جس نے اپنی انکھوں کے سامنے اپنے جوان بیٹے کو لال مسجد میں تیزاب سے جلتے دیکھا، اے کاش اے کاش کہ اپ ایک دعوت نامہ اس سہاگن کو بھیج دیتے کہ جس نے کس کا سہاگ میرٹ ہوٹل کے دھماکے میں اجڑ گیا، اے کاش اے کاش کہ اپ ایک دعوت نامہ ایف ائی اے کی بلڈنگ میں ہلاک ہونے والے رفیق خان کی اس بیٹی کو بھیج دیتے کہ جو اب بھی منتظر ہے کہ بابا چوڑیاں کب لائیں گے بابا چوڑیاں کب لائیں گے! علی وقار کاش اے کاش کہ اپ ایک دعوت نامہ ایک دعوت نامہ سوات کے ان معصوم بچوں کو بھیج دیتے کہ جو ملبے کے ڈھیر تلے اپنی کتابیں تلاش کرتے ہیں، اپنی کرسیاں تلاش کرتے ہیں اپنے بینچ تلاشتے ہیں وہ یہاں پہ نالاؤ سیون بلند کرتے اور بتاتے کہ تقریب کار کوئی اور نہیں وہ اتے گریازاری کرتے اور بتاتے کہ تقریب کار کوئی اور نہیں اہو بکا کرتے اور بتاتے کہ تقریب کار کوئی اور نہیں معصوم بچے انکھوں میں انسو لے کر اتے اور پکار پکار کر کہتے
کہاں ہے عرض و سما کا مالک کہ چاہتوں کی رگیں کریدے
ہوس کی سرخی رخ بشر کا حسین غاز ہ بنی ہوئی ہے
ارے کوئی مسیحہ ادھر بھی دیکھے کوئی تو چارہ گری کو اترے
افق کا چہرہ لہو میں تر ہے زمین جنازہ بنی ہوئی ہے
زمین جنازہ بنی ہوئی ہے
صدر علی وقار! اگر اب بھی اسے اعوان میں کوئی یہ کہتا ہے کہ تقریب کار کوئی اور ہے قصوروار کوئی اور ہے تو پھر میں کس کے نام لکھوں؟
جو علم گزر رہے ہیں میرے شہر جل رہے ہیں، میرے لوگ مر رہے ھیں
Thanks for reading this Article on “Humnay Takhreeb se Khud apnay Nasheman Phonkay Urdu Speech” in Written Form. Thankyou for visiting our Site !
Humnay Takhreeb se Khud apnay Nasheman Phonkay | Video
ALSO READ
Urdu Speech on “Markaz-e-Yaqeen Pakistan”
This Article can be used as an Essay or Speech on the Topic Humnay Takhreeb se Khud apnay Nasheman Phonkay , Urdu speech on Humnay Takhreeb se Khud apnay Nasheman Phonkay